کشمیری پنڈتوں کی ہلاکتوں کو نسل کشی قرار دینے والے سانحہ گاؤ کدل پر خاموش کیوں۔انجینئر رشید
سرینگر21جنوری /سی این ایس / شہدائے گاؤ کدل کو اُن کی اٹھائیسویں برسی کے موقعہ پر خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے اے آئی پی سربراہ انجینئر رشید نے کہا ہے کہ ہندوستانی اداروں نے نہ صرف اہل کشمیر کو مایوس کر دیا ہے بلکہ کشمیریوں کو انصاف نہ دینا قوم پرستی اور وطن پرستی کی نئی مستقل پہچان بن گئی ہے ۔ اپنے ایک بیان میں انجینئر رشید نے کہا ’’سانحہ گاؤ کدل اور اس جیسے درجنوں واقعات جہاں پورے کشمیر کے ہر علاقے میں پیش آئے لیکن ابھی تک کہیں بھی کسی وردی پوش کو اعلانیہ یا خفیہ سزا ملنا تو دور کی بات بلکہ کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی کے چند الفاظ بولنے کے بھی کوئی ہندوستان میں سامنے نہیں آتا ہے ۔ افسوس تو یہ ہے کہ جہاں ہندوستانی میڈیا، سیاستدان اور خود ساختہ فرقہ پرست دانشور گذشتہ اٹھائیس برسوں سے چند کشمیری پنڈتوں کی افسوسناک ہلاکت کو جہاں نسل کشی کا نام دیکر اہل کشمیر کو بدنام کر رہے ہیں وہاں گاؤ کدل میں وردی پوشوں کے ہاتھوں پچاس سے زیادہ نہتے شہریوں کے قتل عام کے بارے میں یہ لوگ ابھی تک اپنی زبان کھولنے کیلئے بھی تیار نہیں ہیں ۔ اہل کشمیر کو بلاشبہ ہندوستانی اداروں اور عدالتوں سے انصاب ملنے کی بہت ہی کم امید ہے اور ذہنی طور سے وہ یہ سب کچھ برداشت کرنے کیلئے تیار ہیں ۔ کشمیری اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں کہ نئی دلی اُن کی آواز کو دبانے اور انہیں چن چن کر مارنے کو اپنے غیر حقیقت پسندانہ موقف کو دوام بخشنے کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ عالمی برادری اگر چہ کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے گئے انسانیت سوز مظالم پر ابھی خاموش ہے لیکن دیر یا سویر پوری دنیا کو کشمیریوں کی بات سننی پڑے گی ‘‘۔ انجینئر رشید نے کہا ’’اتنی بیش بہا قربانیاں دینے کے بعد اہل کشمیر اپنے جائز حقوق سے دستبردار ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے کہ تحریک مزاحمت کسی فرد ، جماعت یا علاقے کی پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ ریاست کے ہر شخص نے کشمیر کے مسئلہ کے رائے شماری کے ذریعے پُر امن حل کیلئے بیش بہا قربانیاں دی ہیں لہذا اُن کی طرف سے سرینڈر کرنے یا اپنے موقف میں نرمی لانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نئی دلی کو چاہئے کہ وہ اس بات کا اعتراف کرے کہ 29برسوں کی اس کی کشمیریوں کے خلاف نسل کشی کی پالیسی روا رکھنے کے باوجود کشمیریوں کا مزاحمتی تحریک کے تئیں جذبہ کم نہیں ہو اہے ۔ نئی دلی کے بہترین مفاد میں بہتر یہی ہوگا کہ وہ اپنے ایجنٹوں اور زرخرید غلاموں پر تکیہ کرنے کے بجائے کشمیر مسئلہ کے حل کی اہمیت کا اعتراف کرے‘‘۔ انجینئر رشید نے اس بات کو دہرایا کہ اہل کشمیر رائے شماری سے کم کسی بھی چیز پر ہرگز تیار نہیں ہونگے کیونکہ اُن کی طرف سے دی گئی بے شمار قربانیاں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ جموں کشمیر کے مسئلہ کا اس کے تواریخی ،پس منظر میں پائیدار اور منصفانہ حل نکالا جائے ۔
Comments are closed.