ٹک ٹاک اور ہماری نوجوان نسل

ٹک ٹاک ایک موبائل ایپ ہے۔ یہ شیطانی مشغلہ کس نے ایجاد کیا ،ان کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں اور بیرون ریاست اس کے لوگوں کے کیا فواید ہیں اس سب پر ہمیں نہ بات کرنے کی اور نہ بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری ریاست میں اس کے استمعال اور نتایج پر تھوڑی بہت روشنی ڑالنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے ۔اس شیطانی مشغلے پر اپنے ادنیٰ سے خیالات پیشِ خدمت کرتا ہوں ۔اور دل آزاری کے لیے معزرت خواہ ہوں۔
ٹک ٹاک : کشمیر میں یہ شیطانی مشغلہ ایک ناسُور کی طرح پھیل رہا ہے ۔آے روز سوشل میڑیا پر کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بندروں کی طرح اُچھل کود کر تے ہوے اپنے آپ کو اس دنیا میں بھی رسوا کرتے ہیں اور اپنی اخرت بھی بگاڑتے ہیں ۔ افسوس تو یہ ہے کی اس زلت آمیز فعل کے مرتکب چھوٹے بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ اب عمر رسیدہ لوگ بھی ہو رہے ہیں اور بڑے فخر سے اس کا حصہ بن رہے ہیں۔ کلیجہ تو تب چھلنی ہوتا ہے جب حوا کی بیٹیاں اس گناہ میں شریک ہو کر اپنے جسموں کی ساری دنیا کے سامنے نمائش کرتی ہیں ۔ ہماری ریاست کی تواریخ پر اگر نظر ڑالیں تو یہ وادی جسے جنتِ بینظر کے لقب سے نوازہ گیا ہے اولیائے کرام اور بزرگانِ رین کا مسکن رہی ہے۔ ہزار ہا سال پہلے وہ اولیا اور بزرگ ہزاروں میل مسافت پیدل طے کر کے ہماری ریاست میں دینِ اسلام کا پیغام پھیلانے آے۔ کتنی صہوبتں اور مشکلات پیش آنے کے باوجود اولییائے کرام نے اس کشمیری قوم کے پاس حق کا پیغام پہنچایا اور اس ریاست کو دینِ اسلام کی روشنی دکھائ۔ کشمیر کے ہر شہر ہر گاوں اور ہر نکڑ پر اولیائے کرام اور بزرگانِ دین کی آخری آرام گاہیں موجود ہیں ۔اس ریاست کو دینِ اسلام سے محبت، امن بھائ چارہ ورثے میں ملے ہیں۔یہاں کی تہزیب و تمدن ،مہمان نوازی، رہن سہن ،آپسی بھائ چارہ پوری دنیا میں ایک مثال ہے۔یہاں مسجدوں میں گونجے والی ازانوں اور درود ازکار کی محفلوں سے دل منور ہوتے ہیں۔ ہماری وادی میں فحشی اور عریانیت سے بھری حرکات کی کوئ گنجایش نہی ہے۔
سماج میں پھیلی بے راہروی اور بے شرمی کی رہی سہی کثر اب ٹک ٹاک کے زریعے پوری ہو رہی ہے ۔جہاں ایک طرف ہماری ریاست میں ہر روز ہمارے نوجوانوں کے جنازے اٹھ رہے ہیں، بچے یتیم، جوان لڑکیاں بیوہ ،بزرگ والدین بڑھاپے کے سہارے سے محروم ، بھائ بہن سے بچھڑ جاتے ہیں اور ماووں سے ان کے لال چھن جاتے ہیں، ہر شام شامِ غم اور ہر رات اندھیری ہو ایسے میں ہمارے کچھ نوجوان بھائ اور بہنیں ایسے گندے اور گناونے فعل کا شکار ہوں یہ قابل شرم بھی ہے اور قابل مزمت بھی۔ کچھ افراد ٹک ٹاک کے اس مرض کو ایک entertainment اور بچوں کی دل بہلائ کے طور پر لیتے ہوں گے لیکن ایسی حرکات سے اس کے مرتکب لڑکے اور خصوصْاْ لڑکیاں ایک تو خود جہنم کی آگ کا ایندھن بنتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس گناہ کے لیے اُکساتے ہیں ۔یہ دینِ اسلام کے دشمنوں کی گندھی سازش کا ایک بہت بڑا داوُ ہے کہ اسلامی ریاستوں، سلطنطوں اور مسلم اکثریت والے علاقوں پر قابض ہونے اور مسلمانوں کو اپنا غلام بنانے کے لیے وہ پہلے مسلمانوں کی نوجوان نسل میں فحاشیت اور عریانیت پھیلا کر ان کو فتح کرنے کی سازش کرتے ہیں اور ٹک ٹاک، ننگا ناچ، فیشن پرستی ،اج کی نوجوان نسل کے بالوں کا سٹائل اور لڑکیوں کی پوشاق وغیرہ سب اسی سازش کا حصہ ہیں۔ کسی بھی ملک و قوم کا سب سے بڑا سرمایہ اس کی نوجوان پِیڑی ہوتی ہے ۔اِن کے ہاتھوں میں ملک و قوم کی تقدیر ہوتی ہے۔ اُن سے ان کے والدین کے ساتھ ساتھ پوری قوم کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ اسلے نوجوانوں کو اپنی زمہ داریوں کا احساس کرنے کی اور ان سے وابستہ امیدوں کی قدر کرتے ہوے دین اور دنیا کی بھلائ کے لیے کام کرنا ہے ۔
ہماری ریاست میں عالموں، واعضوں، مفکروں، دانشوروں، دینی اور فلاحی تنظیموں کی کوئ کمی نہی ہے ۔خدا کے فضل و کرم سے کشمیر کی خوبصورت واری دینی و دنیاوی علم و ادب سے مالامال ہے۔ اسلیے بچوں کے والدین کے ساتھ ساتھ اِن حضرات اور اداروں کی بھی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ نوجوان نسل کی اِصلاح کرنے کے طریقے بروے کار لایں اور اپنی زمہ داری کا احصاس کرتے ہوے اپنی اور نوجوان نسل کی آخرت سنوارنے میں اپنا حصہ ادا کریں۔
اگر میرے ان ادنٰی سے خیالات سے کسی کی دل آزاری ہوی ہو تو اُس کے لیے معزرت خواہ ہوں۔
نیک دعاوں کا طالب: صوفی شفیق (۔9906812635)(7889590566)

Comments are closed.