واقعہ کربلا اور امام حسینؓ کی شہادت، اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
فیضان قریشی
حضرت امام حسینؓ حضرت علی کے آنکھوں کا نورحضرت فاطمہ کے دل کا سرور اور دوشِ رسالت ﷺ کے شہسوار تھے۔
آپﷺ نے جتنا پیار حضرت حسین سے فرمایا ہے اتنا کسی اور سے نہیں کیا ہے۔
حضورﷺ فاطمہ سے فرماتے تھے کی فاطمہ حسین کے رونے کی آواز مسجد میں نہ آٸے میں محمد ان کی آواز سن کر بےقرار ہو جاتا ہوں۔
یہ وہ حسین جنکا جسم حضور ﷺ کے مشابہ تھا۔
تاریخ اسلام میں حضرت امام حسینؓ کی شخصیت جو اہمیت رکھتی ہے وہ محتاج تعارف نہیں۔
خلفاٸے راشدین کے بعد جس واقعہ نے اسلام کی دینی سیاسی اور اجتماٸی تاریخ پر سب سے زیادہ اثرڈالا ہے وہ امام عالی مقام کی شہادت کا عظیم واقعہ ہے اور دنیا کے کسی المناک حادثہ پر نسل انسانی کےاس قدر آنسو نہ بہے ہونگے جس قدر اس حادثہ پر بہے ہیں ۔
بلکہ ہر سال کا محرم اس واقعہ کی یاد تازہ کرتا ہے۔امام حسین کے بدن سے میدان کربلا میں جس قدر خون بہہ چکا ہےاسکے ایک ایک قطرے کے بدلے دنیا آنسوں کا ایک سیلاب بہا چکی ہے۔
امام حسینؓ کی شہادت کا واقعہ اجملاً رقم طراز کر دیتا ہو ۔حضرت امیر معاویہ کی وفات کے بعد یزید نے اپنی خلافت کا اعلان کردیا اور امام حسینؓ سے بھی بعیت کا مطالبہ کیا ،حضرت علیؓ جو امام حسین کے والد بھی تھے،
انہوں نے کوفہ کو دارالخلافہ قرار دیا تھا۔وہاں کے لوگوں نے امام حسین کو پیغام بیجھا کہ آپ کوفہ تشریف لاٸیں ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔
آپ نے اپنے چیچیرے بھاٸی مسلم ابن عقیل کو پہلے روانہ کیا کہ وہ وہاں کے حالات معلوم کر کےآٸے تو انکو وہاں پہونچتے ہی یزید کے گورنر عبیداللہ بن زیاد نے قتل کردیا۔
امام حسین نے یہ خبر سنتے ہی بار بار إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ پڑھنا شروع کیا،اس واقعہ کے بعد آپکو بار بار کوفہ جانے سے روکا گیا لیکن آپ نے فرمایا کہ اب انکی شہادت کے بعد زندگی کا کوٸی مزا نہیں ہے۔ یہ کہہ کر امام حسینؓ روانہ ہویں ،عبیدللہ ابن زیاد نے ایک ہزار فوج کا دستہ آپ کو پکڑ کر لانے کےلٸے روانہ کر دیا,امام حسینؓ نے ہزار خطوط سامنے ڈالکر کہا کہ میں خود نہیں آیا ہو بلکہ ان خطوط پر آیا ہوں ان لوگوں نے خطوط سے انکار کر دیا کہ یہ ہم نے نہیں بیجھے ہیں۔
آخر کار امام حسینؓ میدان کربلا میں یزیدی فوج کے محاصرہ میں پہنچ گٸے اور انکو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ یزید کے ہاتھ پر بعیت کریں مگر امام حسینؓ نے انکار کر دیا, امام حسینؓ اور انکے ساتھیوں کے لٸے پانی مکمل طور بند کر دیا گیا اور پانچ سو سپاہیوں کو پانی کی حفاظت پر لگا دیا گیا تاکہ امام حسین اور ان کے ساتھیوں تک پانی بھی نہ پہونچ سکیں۔
بقول شاعر۔
خود کو تو اک بوند بھی پانی نہ مل سکا
کربلا کو خون پلایا حسین نے
اسکے بعد لڑاٸے شروع ہوٸی اور امام حسین اور انکے بہتر ساتھیوں کو شہید کیا گیا اور شہادت کے بعد بہتر لوگوں کے سر الگ کر دٸے گٸے امام حسین کے بدن سے کپڑے اتارے گٸے اور امام حسینؓ کے بدن کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کردٸے گٸے اسطرح حق اور باطل کی جنگ ختم ہوٸی اور حق باطل پر غالب آگیا۔
بقول مولانا محمد علی جوہر،
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
بہرکیف یہ حادثہ عظیم پوری انسانی تاریخ میں عظیم انقلابوں کا سرچشمہ ہے اور وقت کے ظالموں کے خلاف ایک آواز ہے ،امام حسین نے ایک عظیم مقصد کے لٸے سب کچھ قربان کر دیا زندگی وہ نہیں جس میں عیاشوں کے محل تعمیر کٸے جاٸیں بلکہ زندگی وہی ہے جس میں جہد مسلسل ہو اور کبھی جان دے کر بھی زندگی کو باقی رکھا جاتا ہے اسی کا ایک درخشاں باب واقعہ کربلا ہے
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
فیضان قریشی کشمیر یونورسٹی کے شعبہ میڈیا ایجوکیشن ریسیرچ سنٹر کے طالب علم ہے۔
Comments are closed.