مخاصمت نہیں مفاہمت وقت کی پکار

ریاست جموں وکشمیر کے حالات واضح طور پر کچھ ٹھیک نہیں ہیں اور ان حالات کےلئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل مرتب نہیں کیا جارہا ہے اگر چہ بھارت کے وزیر ومشیر ریاست کا دورہ کرکے حالات کا جائزہ تو لیتے ہیں لیکن اب تک کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا اور گذشتہ دنوںوزیرداخلہ راجناتھ سنگھ ایک بار پھر ریاست کے دورے پر ہیں ۔ دورہ روایتی تھا یا مسائل کو حل کرنے میںکوئی پیش رفت ہوئی ہوگی ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے تخلیق آدم کے بعد روز اول سے اختلافات کا آغاز ہوا ہے اور اختلاف انسان کی فطرت میں پیوست ہے ۔ایک کنبہ سے لیکر سلطنت تک ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف فطری تقاضا ہے ۔ اختلاف بے جا بھی اور بجا بھی ہوسکتے ہیں لیکن اختلافات اس حد تک نہیں بڑھنے چاہئے کہ انسان ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بن جائے اس کواختلاف نہیں بلکہ جہالت سے تعبیر کیا جائے گا ۔ہندوستان اور پاکستان دو ہمسایہ ملک ہیں۔ان دونوں ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سے تنازعات ابھرے ہوئے ہیں ،جن تنازعات کاحل صرف بات چیت میں مضمر ہے ۔لیکن دونوں ممالک ایک دوسرے کو ہم ہستی دکھا کربات چیت کے لئے خلوص نیت کے ساتھ آگے نہیں بڑھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں حل طلب مسائل طول پکڑ تے جارہے ہیںاور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آپسی رسہ کشی سے آپس میں دوریاں پڑجاتی ہیں اور لفظوں کی تلخی سے ہر انسان کا دل بھڑک جاتاہے پھر جب ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کاموقعہ ملے تو جنگ پر اُتر آتے ہیں۔ کیونکہ یہ انسان کی فطرت ہے ۔حالانکہ ان دونوں ممالک کے جتنے بھی تنازعات یا مسائل ہیں ان کا حل دونوں ملکو ں کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔بلکہ تقسیم ملک کے وقت وہ مسائل جلدبازی کی وجہ سے رہ چکے ہیں لیکن دونوں ممالک کے سیاسی قائدین نے ان مسائل کے حل کے لئے باضابطہ طورنقشہ راہِ واضح کیا ہے اور آنے والے حکمرانوں پر ان مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری چھوڑی ہے ۔تاہم دونوں ملکوں میںجو بھی حکومتیںمعرض وجود میں آئیں ۔ان حکومتوں کے حکمرانوں نے ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان پر سیاست گری کرکے اپنی کرسیاں سنبھالیںاورلوگوںمیںاپنی بہی خواہی کاڈھونگ رچاتے رہے ۔جس سے دونوں ملکوں کے لوگ پریشانی میں مبتلا ہوئے ہیں ۔ان مسائل میں سر فہرست مسئلہ کشمیر ہے جو ہر حال میں حل طلب ہے۔لیکن اس کے حل میں تاخیر کی وجہ سے پورے بر صغیر میںصورتحال کشیدہ ہیں اور ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے ۔سرحدوں پر جنگ جیسا سماں ہے سرحدوں کے نزدیک رہائش پذیر لوگوں کی زندگی جہنم زار بنی ہوئی ہے ۔اس سنجیدہ نوعیت کے حوالے سے ریاست جموں وکشمیر کے لاکھوں لوگوں کی جانیں تلف ہورہی ہیںاس کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے فوجی اہلکار بھی اپنی جانیں گواں دے رہے ہیںاور ریاست میں رہائش پذیر لوگوں کا سکون مکمل طور ختم ہوچکا ہے ۔حکومتیں تشکیل دی جارہی ہیں لیکن کوئی حکومت امن عمل کی طرف توجہ مبذول نہیں کرتی ہیں ۔قیام امن کی باتیں کرتے کرتے تھک جاتے ہیں لیکن قیام امن میں جو مسائل رکاوٹ بنے ہوئے ہیںان کی تہہ تک جانے کی زحمت گورا نہیں کرتے ہیں کیونکہ ان حکمرانوں کو لگتا ہے کہ امن میں افادیت کم ہوجائے گی ۔افراتفری میں ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے لیکن عام انسان کیلئے یہ کسی مصیبت سے کم نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دونوں ملکوں میں نیت خلوص کا فقدان ہے حالانکہ اس کے حل کیلئے دونوں ملکوں کے قائدین نے قرادادیں پاس کی رکھی ہیں ۔ صرف حکمرانوں کوآپسی رسہ کشی کو ختم کرنا اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر جملہ مسائل کے پائیدار حل کیلئے آگے بڑھنا ناگزیر ہے اور حقیقت پسندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دونوں ملکوں کےحکمران ان دو بڑے طاقتوں کو تباہی سے بچانے کیلئے خلوص نیت کے ساتھ مذاکرات شروع کریں اور تمام حل طلب مسائل بشمول مسئلہ کشمیر کوحل کرنے میں اپنا رول نبھائیں۔تاکہ سرحدوں پر جنگ بندی معاہدے کی پاسداری ممکن ہوسکے اور پورے برصغیر میںقیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔

Comments are closed.