سرکیولر حق بہ جانب ،بنیادی محرکات تلاش ناگزیر

نجی اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے والدین کواسکولوں اور مخصوص دکانوں پر کتابیں اور وردیاں خریدنے پر مجبور کرنے شکایت کے حوالے سے محکمہ تعلیم کے ناظم تعلیمات نے باضابطہ طور حسب روایت ایک سرکیولر جاری کیا جس میں تمام تسلیم شدہ پرائیویٹ اسکولوں کے منتظمین کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس عمل کو بند کریں بصورت دیگر ان کیخلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی ۔اس سلسلے میںتمام چیف ایجوکیشن آفسران کوبھی ہدایت دی گئی کہ وہ خصوصی ٹیمیں تشکیل دیں تاکہ نجی اسکولوں کی اس غیراصولی عمل پر روک لگائی جاسکے۔اس سرکیولر کے بعدجہاں عوامی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہیں اس کاروبار سے جڑے افراد میں بھی اطمینان دیکھنے کو ملتا ہے ۔تاہم یہ سرکیولر کئی بار آج تک جاری کئے گئے لیکن کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی بلکہ یہ کاغذی گھوڑے دوڑانے کے مترادف ہی ثابت ہوئے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سرکیولر کو جاری کرنا اگر چہ وقت کی ضرورت ہے۔تاہم نجی اسکولوں یا مخصوص دکانات سے بچوں کو کتابیں اور وردیاں خریدنے کے بنیادی محرکات کو دیکھنے کی بھی ضرورت ہے ۔یہاں کے نجی اسکولوں کا سیلبس ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے ۔بیشتر اسکولوں کی کتابیں عام کتب فروشوں کے پاس موجود نہیں ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں زیر تعلیم بچوں کے والدین اسکولوں یا مخصوص دکانات سے خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔اگر تعلیمی نظام مستحکم ہوتا تو تمام اسکولوں کا نصاب مختلف نہیں بلکہ ایک ہی ہوتا تو اس سے یہ تمام شکایات دور ہوجاتے ۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ تعلیمی نظام میں کافی حد تک اُورہالنگ کی ضرورت ہے ۔دھنس ودبائوکے ذریعے نجی اسکولوں پراس طرح کی عمل انجام دینے پر روک لگائی جاسکتی ہے لیکن اس کا اس کا خمیازہ بھی زیر تعلیم بچوں اور ان کے والدین کو ہی بھگتنا پڑے گا ۔یہاں یہ غور طلب ہے کہ گذشتہ برسوں کے دوران پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن جموں وکشمیر نے سرکار کو تجویز پیش کی تھی کہ ایک موزون و مناسب نصاب کو مرتب کرنے کیلئے ماہرین تعلیم کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ یہ تفاوت دور ہوسکے تاہم کافی یقین دہانیوں اور اعلانات کے باوجود بھی کو ئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا ۔جب تک نہ زمینی سطح پر اس حوالے سے ٹھوس اقدام اٹھائے جائیں تب تک ان جاری شدہ سرکیولر پرعمل کرنا نجی اسکولوں کے منتظمین کیلئے بارگراں ثابت ہوگا کیونکہ نجی اسکولوں کے منتظمین کا ایک لائح عمل ہے جس کے نتیجے میں زیر تعلیم بچوں کی بہتر تربیت کرنے میں وہ کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ نجی اسکولوں کے بیشتر فارغ التحصیل طالب علم ہی عصر حاضر کے چیلنجوں کا بہ آسانی مقابلہ کرسکتے ہیںاور یہ بات بھی طے ہے کہ وادی کے کئی اسکولوں میں معیار تعلیم اس حد تک بہتر ہوچکا ہے کہ وہاں کے طالب علم ہمارے سماج کیلئے کسی نمونہ سے کم نہیں ہوتے ہیں ۔ اگرچہ گذشتہ کئی برسوں سے سرکاری اسکولوں کے معیار تعلیم کو بہتر بنانے کی بھی سرکاری سطح پر کوششیں جاری ہیںاور کسی حد تک کامیابی کی طرف گامزن ہے کیونکہ کئی سالوں سے بورڈ امتحانات کے نتائج حوصلہ افزا ہیں تاہم سرکاری اسکولوں میں پرائمری اور مڈل درجوں میں زیر تعلیم بچوں کی بنیادیں(base) نجی اسکولوں کے زیر تعلیم طلبہ کی نسبت کمزور اور غیر اطمینان بخش ہے ۔نجی اسکولوں میں کتابوں اور وردی کے کاروبار پر پابندی عائد کرنا اگر چہ خوش آئند اقدام ہیں لیکن اس کے بنیادی محرکات کو دیکھنے کی اشد ضرورت ہے ۔اسکول منتظمین پر دبائو ڈالنے کے بجائے ان کو جوابدہ بنایا جائے اور ان سے کتابیں اور وردیاں اسکولوں یا مخصوص دکانات سے خریدنے کے وجوہات کے بارے میںپوچھنا لازمی ہے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جہاں پرائیویٹ اسکولوں نے تعلیم کو مہنگا بنایا وہیں انہوں نے نامساعد حالات میں تعلیم کے شعبہ کو بچانے میں کلیدی رول ادا کیا تو اس حوالے ان کا رول تاریخ ساز ہے ۔اس طرح کے سرکیولر کو نئے تعلیمی سال کے آغاز کے بعد ہی جاری کرنا بھی اس حوالے سے مشکوک نظر آتاہے کیونکہ وادی میں قائم مشنری اسکولوں نے بچوںکوداخلہ د یکر ان کو من مانی نصاب کے مطابق کتابیں فراہم کی ہیں اور یہ غور طلب ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نجی اسکولوں میں کتابوں اور وردی خریدنے کے اس کاروبار پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے محرکات جان کر معیاری اورمساوی نصاب بنانے کیلئے ماہرین تعلیم کی ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں پرائیویٹ اسکولوں کو بھی نمائندگی کا موقعہ فراہم کیاجاسکے تاکہ معیار تعلیم بہتر ی کی طرف گامزن ہوسکے اور نجی اسکول منتظمین پر ناانصافی کرنے کی شکایت بھی دور ہوجائے

Comments are closed.