دواساز کمپنیوں سے بیش قیمتی تحائف حاصل کرنے کے چکر میں غریب مریضوں کا خون چوسا جارہا ہے
سرینگر/07دسمبر/سی این آئی/ وادی کے ہسپتالوں میں تعینات ڈاکٹر صاحبان مریضوں کو 80فیصدی ادویات غیر ضروری تفویض کرتے ہیں کیوں کہ معالجین کو دواساز کمپنیوں کی ادویات کی سیل بڑھانی مطلوب ہوتا ہے تاکہ کمپنیوں کی طرف سے ڈاکٹروں کو مہنگے تحائف مل سکیں ۔ تاہم غریب مریضوں کو خون پسینے کی کمائی دوا فروشوں کے حوالے کرنی پڑرہی ہے ۔کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق وادی کشمیر جو جعلی اور غیر میعاری ادویات کی منڈی کے بطورجانی جاتی ہے میںقائم ہسپتالوں میں ڈاکٹر مریضوں کو مرض کیلئے ضروری ادویات کے علاوہ کئی دوائیاں تفویض کرتے ہیں۔ نزلہ زکام وسردرد جیسی معمولی بیماروںکے کئی اقسام کی ادویات تفویض کرتے ہیں جن میں توانائی بخش ادویات (ٹانک )بھی ہوتے ہیں ۔ ہسپتالوں کے باہر قائم ادویات کی دکانیں وہی دوائی رکھتے ہیں جو اند ر سے ڈاکٹر مریض کیلئے لکھتے ہیں ۔ سرکاری ہستالوں میں اکثر ایسے مریض علاج و معالجہ کیلئے آتے ہیں جن کی مالی حالت بہتر نہیں ہوتی ۔ اور جب ڈاکٹر ان کو مہنگی دوائیاں بازاروں سے خریدنے کی صلاح دیتے ہیں تو یہ ان کیلئے باعث پریشانی بن جاتا ہے کیوں کہ ہسپتالوں میں علاج و معالجہ کرانے کے بعد بھی ان کو دوائیوں پر خطیر رقم خرچ کرنی پڑرہی ہے ۔ سی این آئی ذرائع کے مطابق اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹر جو دوائی بازاروں سے خریدنے کیلئے لکھتے ہیں ان کو مریضوں کو خریدنے کے بعد دکھانے کیلئے کہا جاتا ہے تاکہ ڈاکٹر وں کو یہ اطمینان رہے کہ ادویات کمپنیوں کے نمائندوں نے جو دوائی لکھنے کیلئے کہا ہے یہ دوائی وہی ہے کہ نہیں ۔ اس طرح سے ڈاکٹر دواساز کمپنیوں کے مال کو زیادہ سے زیادہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ دواساز کمپنیوں سے مہنگے تحائف حاصل کئے جاسکیں ۔ دواساز کمپنیوں کی جانب سے ڈاکٹر وں کو ایل سی ڈی، فریج، واشنگ مشنین، اعلیٰ قسم کے سمارٹ فون و دیگر چیزوںکے علاوہ دوائیاں زیادہ نکالنے کے عوض بیرون ملک و بیرون ریاست سیر سپاٹے کیلئے ہوٹل کی ٹکٹیں اور ہوائی سفر کی ٹکٹیں بھی دی جاتی ہے۔ ایسے ڈاکٹر صاحبان ایسے غریب مریضوں کے خون پسینے کی کمائی سے اپنے لئے عیش و عشرت کا سامان حاصل کرتے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق ایسے ڈاکٹر ایسی ہی کمپنیو ں کی دوائیاں تفویض کرتے ہیں جن کا منافع بہت زیادہ ہوتا ہے اس سے دکانداروں کو بھی فائدہ ملتا ہے اور دواساز کمپنیوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی بھی چاندی ہوتی ہے
Comments are closed.