سپریم کورٹ میں نئی حکومت کے قیام تک سماعت بند کرنے کی درخواست کی جائیگی
دفعہ35اے کے دفاع کیلئے سیاسی لیڈران کی میٹنگ اتفاق رائے
سرینگر/13ستمبر: صدرِ نیشنل کانفرنس ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ پر آج مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں ریاست کی موجودہ سیاسی اور سیکورٹی صورتحال کے بارے میں تبادلہ خیالات کیا گیا ۔اجلاس میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ، جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، سینئر لیڈران عبدالرحیم راتھر، محمد شفیع اوڑی، سینئر کانگریس لیڈر تاج محی الدین، سینئر سی پی آئی ایم لیڈر محمد یوسف تاریگامی، ڈی پی ایم کے سربراہ غلام حسن میر اور دیگر لیڈران بھی موجو دتھے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اجلاس میں موجود سیاسی جماعتوں کے لیڈران اور نمائندوں کو نیشنل کانفرنس کی طرف سے پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے فیصلے کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا اور دفعہ35اے کے دفاع کیلئے آگے کے لائحہ عمل کیلئے شرکاء سے رائے مانگی۔
اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ آج کے اجلاس میں دفعہ35اے کے کیس میں سپریم کورٹ میں ریاستی حکومت کی پیروی کرنے والے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل تشار مہتا کو فوری طور تبدیل کرنے اور سپریم کورٹ میں ریاست میں نئی عوامی حکومت کے قیام تک کیس کی سماعت بند کرنے کے مطالبے پر اتفاق پایا گیا۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ریاستی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے وکیل تشار مہتا نے حکومت کے مؤقف سے ہٹ کر بات کی ، جس کا اعتراف حکومت نے بھی کیا ہے۔ حکومت نے انہیں سپریم کورٹ میں اپنی دلیل سنانے کیلئے نہیں بلکہ حکومتی موقف سامنے رکھنے کیلئے بھیجا تھا۔ اس بنیاد پر اب ان پر بالکل بھی بروسہ نہیں رہا اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تشار مہتا تو فوری طور پر ہٹایا جائے اور اس کیس کی پیروی کرنے والے سابق وکلاء صاحبان کو واپس دفاع کیلئے لایا جائے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ کئی جماعتوں نے مرکزی سرکار سے دفعہ35اے سے متعلق اپنی پوزیشن واضح کرنے کیلئے کہا تھا لیکن آج تک مرکز کی طرف سے کچھ بھی سامنے نہیں آیا۔ ریاست پر بھی آج دوسرے معنوں میں مرکز ہی حکومت کررہا ہے اور یہاں حکومت ہند کے ہی اشارے چلیں گے۔ اس لئے ہم نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ 9جنوری کو سپریم کورٹ اس بات کی درخواست کی جائے گی کہ ریاست میں نئی عوامی حکومت کے قیام تک سماعت بند کی جائے۔ ’ریاست میں الیکشن ہونگے، نئی حکومت بنے گی اور وہ صحیح طریقے سے کیس کا دفاع کریگی۔‘ایک سوال کے جواب میں عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے دفعہ35اے کو پنچایتی انتخابات سے نہیں جوڑا بلکہ مرکز نے ہی سپریم کورٹ میں بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کی بنیاد پر سماعت ملتوی کروائی۔ مرکزی سرکار نے ہی دفعہ35اے کو الیکشن کیساتھ جوڑا۔ ہم سے بار بار پوچھا جارہاہے کہ آپ نے کرگل الیکشن میں حصہ لیا تو پنچایتی و بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیوں کیا جارہا ہے؟ اگر مرکز نے کرگل الیکشن کو بھی دفعہ35اے کیساتھ جوڑا ہوتا تو ہم اُس میں بھی حصہ نہیں لیتے۔ مرکز نے ہی ان انتخابات کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں سماعت ملتوی کروائی ، اس کے بعد ہمیں فیصلہ لینا پڑا۔ ایک سوال کے جواب میں عمر عبداللہ نے کہا کہ ریاست کی سب سے بڑی 2سیاسی جماعتیں الیکشن میں حصہ نہیں لے رہی ہیں ، اگر اس کے باوجود بھی حکومت کو لگتا ہے کہ انتخابات کا انعقاد کرانا صحیح ہے تو بے شک وہ الیکشن کروائیں۔ نیشنل کانفرنس کی موجودگی ریاست کے تینوں خطوں میں ہے اور پی ڈی پی کی بھی اپنی اہمیت ہے ۔ ریاست کے سابق 3وزرائے اعلیٰ ان ہی دو جماعتوں سے رہے ہیں۔ اگر ان دو جماعتوں کے بنا الیکشن واقعی کوئی معنی رکھتے ہیں تو ریاستی حکومت شوق سے الیکشن کروائیں، ہم نے کسی کو ووٹ ڈالنے کیلئے نہیں روکا ہے۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے کہا کہ دفعہ35اے سے متعلق صرف علیحدگی پسند اور مین سٹریم کا ہی ایک موقف نہیں بلکہ اس دفعہ کو بچانے کیلئے ریاست کا ہر ایک باشندہ کوئی بھی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔ یہاں تک کہ بھاجپا کے متعدد ممبرانِ اسمبلی نے کھل کر اس دفعہ کی دفاع کی بات کی۔ دفعہ35اے سے متعلق جو ہڑتالیں کی گئیں ، وہ خود اپنی کہانی بیان کرتی ہیں، اس دوران وہ دکانیں بھی بند رہیں جو شائد گذشتہ25سال میں کبھی بند نہیں ہوئی تھیں۔
Comments are closed.