جموں وکشمیرکو ملاہوا خصوصی درجہ کمزور پڑنے لگا تو محبوبہ مفتی نے اٹھایا یہ بڑا قدم

جموں وکشمیر میں چل رہی سیاسی اٹھا پٹخ کے درمیان ریاست کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد ٹوٹنے اور 35 اے سمیت کئی مسائل پر اپنی پوزیشن واضح کی ہے۔ انہوں نے بی جے پی کے کچھ رہنماؤں کو ریاست میں بگڑی سیاسی صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ سی این این۔ نیوز 18 سے بات کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ جموں و کشمیر کا مفاد ذہن میں رکھتے ہوئے کانگریس اور نیشنل کانفرنس سے ہاتھ ملایا۔

مفتی نے کہا، "ہم نے وزیر اعلی رہتے ہوئے 35 اے کا دفاع کیا۔ لیکن گورنر راج لگنے کے بعد مناسب طریقے سے 35 اے کا دفاع نہیں کیا جا رہا۔ اگر ہماری حکومت بنتی تو 35 اے کا دفاع کرتے۔ ریاست کو ملا خصوصی درجہ کہیں نہ کہیں کمزور پڑ رہا تھا، اس نے ہمیں ساتھ آنے کے لئے مجبور کیا تھا۔ ”

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نہیں، بی جے پی کے کچھ لوگ کانگریس۔ پی ڈی پی اور این سی میں توڑ پھوڑ کر رہے تھے۔ تاکہ ایک تیسری پارٹی کی حکومت بنائی جا سکے۔ دوبارہ ہاتھ ملانے پر انہوں نے کہا کہ ہم نے ریاست کے مفادات کے لئے بی جے پی سے ہاتھ ملا کر قربانی دی۔ کانگریس، این سی اور پی ڈی پی ہر ایک کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے۔ پی ڈی پی نے اپنے ایجنڈے سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ آنے والے وقت میں بھی ایجنڈا سب سے اوپر رہے گا، پارٹی نہیں۔ تاہم، انہوں نے کانگریس۔ این سی سے دوبارہ ہاتھ ملانے سے انکار نہیں کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: محبوبہ مفتی نے اسمبلی کو تحلیل کئے جانے کے خلاف اپنے اگلے قدم کے بارے میں دیا یہ بڑا اشارہ

انہوں نے کہا کہ ستیہ پال ملک ایسے پہلے گورنر ہیں جنہوں نے دلی کی بات نہ سن کر اپنے ضمیر کی بات سنی۔ آج تک جتنے بھی گورنر آئے، زیادہ تر نے دہلی کے اشارے پر جموں و کشمیر میں اتھل پتھل مچائی ہے۔ اگر سجاد لون کے پاس 18 ایم ایل اے تھے، تو وہ پانچ ماہ سے کیا کر رہے تھے؟ پی ڈی پی کے لوگ ایماندار ہیں اور پارٹی کے لئے وقف ہیں۔ اگر انہیں جانا ہوتا تو وہ پانچ مہینے پہلے چلے گئے ہوتے اور ان کی حکومت بن گئی ہوتی۔ یہ دعویٰ بس ایک ڈھکوسلہ ہے۔ ایک دو لوگوں کو چھوڑ کر پارٹی میں کوئی بغاوت نہیں۔

Comments are closed.