بے روزگاری ایک چیلنج ،سدباب ناگزیر

بے روزگار نوجوانوں کو یہ امید ہوتی ہے کہ پروفیشنل یا ماسٹرس ڈگریاں حاصل کرکے وہ اپنی حق بجانب کرسی پر فائز ہونگے۔لیکن حالات اِس کے برعکس ہیں کیونکہ سرکار بے روزگاروں کیلئے روز گار کے مواقعے فراہم کرنے میں ہر محاذ پر ناکام ہوئی ہے۔اور اس ناقص نظام سے بے روز گار تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تمام اُمید وں پر پانی پھیرتا ہے۔اب جہاں تک اِن نوجوانوں کی مقرر عمر کی حد برقرار ہوتی ہے۔ تووہ بیچارے ایمپلائمنٹ دفتروںیا دوسرے دفاتر کا چکر کاٹتے ہیں اور اخبارات کا مطالعہ کرنے کے خواہاں نہیں ہوتے ہیں۔ تاہم نوکریوں سے متعلق شائع ہونے والے اشتہارات و دیکھنے کے لئے ہر روز اخبارات کی جانچ پڑتال کرتے رہتے ہیں۔کبھی بنک ڈرافٹ بناکرفارم داخل کرتے ہیں اور کہیں براہ راست متعلقہ دفتر پر جاکر اپنے درخواست پیش کرتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انٹریو کے لئے طلب بھی کئے جاتے ہیں لیکن انٹریو کے دوران یا بعد میں امیدواروں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھاجارہا ہے جس سے وہ بددل ہوجاتے ہیں اور وہ نوجوان اُن سے سبقت لیتے ہیںجو اثررسوخ رکھتے ہیں اگر چہ ان کا تعلیمی معیار اور قابلیت دیگر نوجوانوں کی نسبت محدود ہوتی ہے اس لئےوہ تعلیم یافتہ نوجوان اپنے قسمت کو دھتکارتے ہیں جنہوں نے محنت کرکے بڑی مشکل سے کالجوں یا یونیورسٹویوںمیں داخلہ لیا ہوتا ہے ، معیا ر تعلیم کے نام پر زیر تعلیم طلبہ کو ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے ۔ بہرحال اُس وقت تک اُن کی تشنگی رہتی ہے۔جب تک عمر کی مقررہ کردہ حد ہوتی ہے۔لیکن جب یہ تعلیم یافتہ بے روز گار نوجوان عمرکی حد بھی پار کرتے ہیں تو اُن کا جگر پھٹنے کو آتا ہے اور کہیں ایسے خودکشی کے واقعات بھی پیش آتے ہیں۔ حالانکہ خود کشی حرام ہے اور اِس حرکت پرکافی وعید ہے۔مگر اگر حقیقت کی عینک سے دیکھا جائے تو تعلیم یافتہ بے روز گار نوجوانوں یا اُنکے والدین سے پوچھو کہ اُن پر کیا بیت جاتا ہے ۔وہ کس پریشانی کی حالت میں پڑے ہوتے ہیں۔وہ تو پڑھ لکھ کے معذور ہوچکے ہیں اور یہ نوجوانوں تعلیم یا ڈگریاں حاصل کرتے کرتے اپنی زندگی کا قیمتی وقت خرچ کرتے ہیں اور بعد میں روز گار کی تلاش میں دردر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے اپنا اہم وقت گنواں دیتے ہیں اور آخری لمحات تک ان کا کوئی پُرسان حال نہیں ہوتا ہے۔اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ تو اپنی روزی روٹی کیلئے پریشان ہیں بلکہ جس اہم چیز کی ہر متنفس کو ضرورت ہوتی ہے وہ نکاح ہے، میں بھی اڑچنیں پیدا ہوتی ہیں۔ آج کل کے دور میں لڑکے والے یا لڑکی والے کیلئے پہلی شرط سرکاری ملازمت ہوتی ہے اگر لڑکا یا لڑکی سرکاری ملازم ہے تو رشتہ بہتر آئے گا۔اِس طرح سے سرکاری ملازمت ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے جنہوں نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے ڈگریاں حاصل کی ہوتی ہیںنکاح جو سنت نبویؐ ہے اور ضروری ہے کے لئے مشروط بن جاتی ہے۔اس مشروط نکاح کے نتیجے میں تعلیم یافتہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی کثیر تعداد جو نکاح سے بھی محتاج ہوچکے ہیں اور بیشتر لڑکیاں شادی کے لئے مقررہ عمر کی حدیں بھی پار کر گئیں ہیں۔اِن حالات سے یہاں کی سرکا ر بخوبی واقف ہے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں جو ہر محاز پر سراب ثابت ہوئے اور حقیقت یہ ہے کہ سرکار حکمت عملی اوربے روز گاری کے خاتمہ کے لئے لائحہ عمل ترتیب دینے میں بُری طرح ناکام ہوئی ہے ۔حالانکہ عام لوگوں کا فہم بھی بے روز گاری کے خاتمے کے لئے نت نئے فارمولے ترتیب دے سکتے ہیں ۔ٹھیک ہے کہ سرکار نوجوانوںکو لاکھوں کی تعداد میں سرکاری نوکریاں فراہم نہیں کرسکتی ہے۔کیا وہ یہاں کے پرائیوٹ سیکٹر کو سمی گورنمنٹ بنا کر بے روزگاروں کیلئے روز گار کے مواقعے تلاش نہیں کرسکتی ہے۔

Comments are closed.