”اردو صحافت کے 200سال“:حیدرآباد میں سہ روزہ کانفرنس اختتام پذیر
اردوصحافت میں ممتاز رول ادا کرنے خصوصاً سیلاب 2014کے دوران قابل فخر رول ادا کرنے پر تعمیل ارشاد ایوارڑ سے سرفراز
سرینگر /15نومبر /
مولانا ابولاکلام آزاد یونیورسٹی حیدرآباد میں”اردو صحافت کے 200سال“کے عنوان پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس منگل کو اختتام پذیر ہوئی۔کشمیر پریس سروس کے موصولہ اطلاعات کے مطابق اختتامی تقریب سے متعدد سینئر صحافیوں اور یونیورسٹی حکام نے خطاب کیا اور اس کانفرنس سے حاصل شدہ مفید معلومات اور مشوروں و تجاویز پر عمل درآمد کیلئے اتفاق رائے کیا گیا۔آخر میں مختلف شعبوں میں نمایاں اور گراں قدر صحافتی خدمات پر میڈیا اداروں اور صحافیوں کو اعزازات سے نوازا گیا۔اختتامی تقریب پر وائس چانسلر مانو پروفیسر سید عن الحسن نے سبھی مندوبین کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہاکہ اردو صحافت برصغیر کی ایک سب سے بڑی ضرورت ہے اور اس کا مستقبل اب بھی روشن ہے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اس زبان اور زبانی اسلوب کو موجودہ وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے اور اسے زیادہ سے زیادہ عوامی ذریعہ مواصلات بنایا جائے۔انہوں نے صحافت میں ٹیکنالوجی اور خصوصا ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا بھرپور استعمال کئے جانے کی بھی وکالت کی۔وائس چانسلر مانو نے اس موقعے پر ملک بھی سے آئئے سبھی صحافیوں اور میڈیا اداروں کے مالکان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مستقبل میں بھی اس طرز کی کانفرنسیں منعقد کرنے کا اعلان کیا۔اختتامی تقریب سے مولانا آزاد اردو یونیورسٹی حیدرآباد کت شعبہ ماس کمیونکیشن و جرنلزم کے ڈین پروفیسر احتشام احمد خان نے سبھی کانفرنس کے مندوبین اور ماہرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک تاریخی کانفرنس تھی جس سے بہت کچھ حاصل ہوا ہے۔انہوں نے کہاکہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ماس میڈیا طلبائ کو ملکی و بین الاقوامی سطح کے سینئرصحافیوں کے ساتھ ملنے اور دو بدو ان کے خیالات سننے کا موقع ملا ہے۔انہوں نے کہاکہ یہاں پر ماہر صحافیوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ان کی روشنی میں اردو صحافت کی ترویج کیلئے ایک لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا۔یہ نہ صرف اردو زبان کے پھیلایااور اسکی ترقی میں ممد ثابت ہوگا بلکہ یہ مجموعی طور میڈیا کیلئے ایک نیک شگون ہوگا۔انہوں نے کہاکہ اب یونیورسٹی اس طرح کی بین الاقوامی کانفرنسیں ان علاقوں اور خطوں میں بھی منعقد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو کہ ہندی زبان کیلئے جانتے جاتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ زبانیں کسی خاص مذہب یا خاص علاقے سے تعلق نہیں رکھتی ہیں بلکہ یہ سب کی زبان ہوتی ہے اور اسکی ترویج کیلئے سبھی کو مل کر کام کرنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ اردو ہندوستان کی تاریخی زبان ہے اور اسے ہندوستان کے ہر ہر طبقے اور علاقے تک رسائی ہونی چاہئے جس کیلئے صحافت کو بہت زیادہ کام کرنا ہوگا۔تقریب سے جنوبی ہند کے معروف اخبار روزنامہ سیاست کے مدیر اعلی نے بھی اردو صحافت کی ترویج اور اردو میڈیا کو درپیش مسائل و مستقبل کے حوالے سے اپنے تاثرات کااظہار کیا۔انہوں نے کہاکہ انہوں نے مرکزی حکومت کے ساتھ کئی میٹنگیں کی ہین اور مرکز سے اردو میڈیا کی اہمیت و افادیت کے بارے میں مزید کوششیں کئے جانے کی گذارش کی ہے۔انہوں نے کہاکہ حکومت سے تعاون حاصل کرنے کیلئے مزید اور جامع کوششوں کی ضرورت ہے۔آخر پر ایوارڑ تقریب منعقد ہوئی جس میں کئی اعلی صحافیوں اور میڈیا اداروں کو ان کی بہترین کاوشوں اور رول پر اعزازات سے نوازا گیا۔روزنامہ تعمیل ارشاد کو جموں وکشمیر کی صحافتی تاریخ میں نمایاں کردار ادا کرنے خصوصا سیلاب2014کے دوران یہاں پر اخباری اشاعت کو زندہ رکھنے کیلئے اعزاز سے نوازا گیا۔اس موقعے پر بتاےا گیا کہ روزنامہ تعمیل ارشاد نے تین دہائیوں سے زےادہ عرصے سے جموں وکشمیر میں اردو صحافت میں ایک ممتاز مقام حاصل کیا ہے اور اس روزنامہ کو شہروں اور دوردراز دیہاتوں تک رسائی ہے اور اسے بھرپور طرےقے سے عوامی پذیرائی حاصل ہے۔نیز سیلاب2014 کے دوران جب کشمیر پوری طرح سے سیلاب کی زد میں تھا ،روزنامہ تعمیل ارشاد نے ہی اردو صحافت کو وہاں زندہ رکھا اور اخبار کی اشاعت بند نہیں ہونے دی جسے اردو صحافت کیلئے ایک کنٹریبیوشن تصور کیا جانا چاہئے۔یہ اعزاز تعمیل ارشاد کے مدیر راجا محی الدین نے حاصل کیا۔
Comments are closed.