انسان کسی بھی عمرمیں یتیم ہوجاتا ہے ۔بچپن میں والدین کا سایہ اُٹھ جانے سے یتیم ہونا ایک بڑا سانحہ ہوتا ہے لیکن اس معصومیت میں بچہ اپنے ماں وباپ کے پیار وشفقت سے محروم ہوکرکندن کی طرح سخت بن جاتا ہے اورآخری عمر تک سخت کوشی سے اپنی زندگی بسر کرتا ہے لیکن جب ادھیڑ عمر میں والدین بالخصوص ماں کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے تو وہ ناقابل برداشت صدمہ اور سانحہ سے گذر جاتاہے اور اس صدمہ سے ایک سال قبل اسی روز یعنی10دسمبر 2023رات کے 10:30بجے راقم الحروف کو اس عظیم صدمے کا سامنا کرنا پڑا ۔میری والدہ ماجدہ آمنہ جو عرف عام میں (اماں ) کہلاتی تھیں ۔وہ میری آنکھوں کی
ٹھنڈ ک ،میرے دل کا سرور،میری زندگی کا چین ،میرے بچپن کی دوست ،میری راز دار،میرے امیدوں کی کرن ،میرے گھر کی دربان ،مہمانوں کی مہمان نواز ،میرے دوستوں کی راہیں تکنے والی ،صلح رحمی کرنے والی ،رشتوں کو جوڑنے والی ،یتیموں کی پرورش اور مسکینوں کو کھلانے والی ،دوسروں کی خوشیوں میں جھوم کر خوشیاں منانے والی ،اپنے شوہر محترم کا عزت واکرام کرنے والی ،اس کے غموں میں مداوااوراس کی خوشیوں میں خوشیاں بھرنے والی ،اپنی اکلوتی بیٹی اوربہو کی دالدادہ اوران کو غلطیوں کو سنورنے والی ۔ان سے پیارومحبت کرنے والی ،میرے ساتھ میرے دوبھائیوں کی بہترین تربیت کرنے والی ،اپنے بھائی بہنوں کی ہمدرد وان کی فکر کرنے والی ،پیروجوان کی ’’ امان کہلانے والی ،اپنے اور پرائیوں کیلئے وردِ زبان دعائیں رکھنے والی ،اپنے ہمسایوں کے ہر غم وخوشی میں ان کے کام آنے والی’’اماں ‘‘‘ عظیم ماں ہمیں داغ مفارقت دے کر چل بسیں ۔میری اماں کی جدائی سے ہمارے صبر کا دامن لبریز ہوچکا ہے اور اس کی وفات پر ہمیں صبر آزما مراحل سے گذرنا پڑا کیونکہ میری ماں کی کوئی تمنا پوری نہیں ہوسکی ۔پوتے پوتوںکو دیکھنے کی متمنی تھیں لیکن وہ ارمان سینے میں رکھ کر ہی جل بسی ۔میرے بچے محمد برہان کو موت کی حالت میں دیکھ لیا تو سینے میں درد تھی اوراس کے پاس دارالبقاء میں جانے کی خواہش ہمیشہ ظاہر کرتی رہتی تھیں اور پھر وہی ہوا۔ چھوٹے اولادنصراللہ کے بچے محمدانظر کو درمادرشکم پایا لیکن اس کا دنیا میں آنے پر موجود نہیں تھیں ۔اپنے شوہر نامدارخواجہ ولی محمد کے علاوہ جسمانی طور کمزرو بیٹے رفیق احمد ، اپنی اکلوتی بیٹی ریحانہ (راہی جان ) اوراپنی بہونفیسہ کرمانی اور بسمہ جان کو چھوڑ کر اپنی راہ لیکر ہمارے گھر کو ویران کر ڈالا ۔جبکہ اپنے برادراں حاجی عبدالرشید ، جاوید احمد اورہمشیرہ مسمات پروینہ کی ہمدرد اور شفیق بہن ان کو داغ مفارقت دے گئیں اوراپنی بہن کا غم سینے میں لیکر ان کے برادر اصغر حاجی عبدالرشیدجو سماج میں ایک عظیم المرتبت شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے تھے صرف پانچ ماہ بعد اللہ کو پیارے ہوکر ان سے ملاقی ہوئے۔جبکہ میری ماں اپنی والدہ ماجدہ مسمات شہمالی بیگم کی وفات کے صرف دس ماہ بعد اللہ سے جاملیں ۔گویاکہ ماں بیٹے اوربیٹی صرف 15مہینوں کے اندر ہی اس دار فانی سے رخصت ہوئے ۔میری ماں کی جدائی پر ہرکوئی جاننے والے کی آنکھیں نم اور دل رنجیدہ تھا ۔میں اپنی جواں سال ماں کی نوجوانی کابھی گواہ ہوں کہ کس طرح وہ ایک محنت کش ہونے کا ثبوت فراہم کرتی تھیں ۔سسُرال کے بوجھ اور میکے کی فکر کو ایک خودارخاتون کی طر ہی نہیں بلکہ ایک مردِ آہن کی طرح تمام چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہیں ۔تند مزاج ہوکے بھی اس کی شفقت ہر ایک کو رُلاتی ہوگی کیونکہ آپ کی ادائیں بے نظیر اور بے مثال تھیں ۔مجھے دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے تک یہ معلوم نہیں تھا کہ میری ’’اماں ‘‘کم تعلیم یافتہ تھیں ۔معلوم بھی کیسے ہوتا ؟ اسکول سے آنے کے بعد آج کے والدین کی طرح اسکول ورک اور ہوم ورک چیک کیا کرتی تھیں اور لگتا تھا وہ ماہر تعلیم ہے ۔اللہ رب العزت نے میری اماں کو قدرتی حسن وجمال سے بھر دیا تھا ۔تن کی صفائی وستھرائی کے ساتھ ساتھ کردار اور بے باکی کی پیکر تھیں ۔دن یا رات کو کسی مہمان کے آنے کی آہٹ سنتی تھیں تو خوشیوں سے سمانہ جاتی تھیں اور اس کے ماتھے پر کبھی بھی شکن نہیں دیکھی جاتی تھی بلکہ خندہ پیشانی سے نایاب ضیافتیں تیار کرکے پیارومحبت سے مہمانوں کو کھلاتی تھیں ۔یہ کہنا بے جانہیں ہوگا کہ میری اماں کے ہاتھوں سے بنے انمول اور ذائقہ دار ضیافتیں ہر کسی کھانے والے کو ستاتی ہونگی وہ ایسی varietiesبناتی تھیں جو علاقہ میں ضرب المثل بنی ہوئی ہیں ۔ان دوست واحباب کو اماں بار بار یاد آتی ہوگی جن کے ساتھ وہ بے پناہ محبت کرتی تھیں وہ پیارومحبت کی مجسمہ تھیں۔سائلاں ( بھکاریوں )کو کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں کیا ہوگا ۔مساجد یادرسگاہوں کی تعمیر کیلئے اپنے زیوارت اور لباس صدقہ کرتی تھیں دینی اجتماعات کے انعقاد پر ایک مرد سے زیادہ قیام وطعام میں اپنا رول نبھاتی رہتی تھیں ۔عبادت الٰہی کے دوران یا مساجد میں خاص دنوں پر قرآن خوانی اور نعت خوانی پر ایسی روپڑتی تھیں جیسا کہ وہ اللہ کے ساتھ محو گفتگو ہوا کرتی تھیں اور موبائیل فون سے ایسی نعتیں سنتی رہتی تھیں جس سے آپ کا دل موم نرم پڑجاتا تھا ۔اشکبار ہوجاتی تھیں ۔شرک وبدعات سے پاک تھیں ۔عالم اگر چہ نہیں تھیں لیکن عمل جتنا کرتی تھیں تو یقین کے ساتھ یہ سمجھ کر تی تھیں کہ اللہ ضرور اس کا معاوضہ دے گا ۔حج بیت اللہ کی بہت آر زو تھی لیکن ہماری بدنصیبی اس کی وہ تمنا بھی پوری نہیں ہوسکی ۔میر ی’’ اماں ‘‘غربت میں بھی ایسی خودار خاتون تھیں اورآپ کاضمیر بیدار تھا عیش والوں سے کبھی غریبی کی شکایت نہیں کرتی تھیں زخم کی طرح ہنستی تھیں اور درد کی حالت کسی کو نہیں کہتی تھیں ۔میری اماں کی جن لوگوں کو بھی یاد آتی ہوگی اورجو بھول گئے ہونگے ان تمام سے میری درخواست رہے گی ۔ان کی مغفرت اورجنت نشینی کیلئے دعا کریں ۔واضح رہے میری ماں قصبہ ڈنگی وچھہ رفیع آباد بارہمولہ کے ایک معروف تاجر خواجہ غلام محمد کی صاحبزادی وانی خاندان میں پیدا ہوئی ہیں اور اسی خاندان کے خواجہ غلام احمد کے گھر میں اس کی بیاہی ہوئی تھی ۔زندگی کے تمام منازل طے کرنے کے بعد بالآخر اپنی امانت اللہ کو واپس کردی ۔اللہ آنے والی ان کی ہر منزل کو آسان کردے اوران کی تمام ادائیں ،رفاقتیں ہمارے لئے باعث نجات ثابت ہوجائیں اورہم پر راضی ہو اورآپ کی عظیم کارناموں کے طفیل ہماری دین ودنیا آباد ہوجائے ۔آمین۔قارئین حضرات یہ راقم الحروف کے اپنی ماں کے تئیں چند جذبات ہیں ورنہ آپ کی کہانی طویل ہے جس کو ایک صفحہ پر لانا ممکن نہیں ۔کیونکہ میری ماں کے ستم اور آپ کی تمنائیں ادھور ی رہ گئیں۔موت ایک اٹل حقیقت ہے اوراس سے کسی کو رستگاری نہیں ۔لیکن ماں کی جدائی کسی غم سے کم نہیں ۔اب اس مضمون کے ساتھ علامہ اقبال ؒ کی نظم ’’ والدہ محرومہ کی یاد میں ‘‘ کے چند اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں ۔اللہ ہمارے سر پراپنے شریف اورزیر ک والد محترم کا سایہ تا دیر رکھے اورآپ کی تمنائیں اورآرزویں پوری ہوجائیں ۔
تحریر ۔ناظم نذیر
ذرہ ذرہ دہر کا زندانیِ تقدیر ہے
پردہ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے
جب ترے دامن میں پلتی تھی وہ جان ناتواں
بات سے اچھی طرح محرم نہ تھی جس کی زباں
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبت مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم
خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمای ِعزت ہوا
دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی
وہ جواں قامت میں ہے جو صورت سرو بلند
تیری خدمت سے ہوا جو مجھ سے بڑھ کر بہرہ مند
کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت
گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت
زلزلے ہیں بجلیاں ہیں قحط ہیں آلام ہیں
کیسی کیسی دختران مادر ایام ہیں
موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ ٔنورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
Comments are closed.