آنجہانی واجپائی کا روڈ میپ اپنایا جاتا تو جموں وکشمیر کی آج یہ حالت نہ ہوتی: عمر عبداللہ

سری نگر،5 نومبر

جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے سابق وزیر اعظم آنجہانی اتل بہاری واجپائی پر تعریفوں کے پھول برساتے ہوئے کہا کہ اگر جموں و کشمیر پر واجپائی جی کے روڈ میپ کو پوری طرح سے عمل میں لایا جاتا تو آج جموں وکشمیر کی یہ حالت نہیں ہوتی۔انہوں نے کہا: ’واجپائی جی نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار رکھنے کی کوشش کی‘۔
وزیر اعلیٰ نے ان باتوں کا اظہار منگل کو جموں وکشمیر اسمبلی سیشن کے دوسرے دن گذشتہ دس برسوں کے دوران انتقال کرنے والے 57 قانون سازوں کے تعزیتی ریفرنس پر بولنے کے دوران کیا۔انہوں نے کہا: ’میں آںجہانی واجپائی جی کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں، وہ ایک عظیم وژنری تھے، وہ ایک بلند پایہ شخصیت تھے جنہوں نے لاہور بس شروع کی اور مینار پاکستان گئے‘۔ان کا کہنا تھا: ’واجپائی جی نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی، واجپائی وہ شخص تھے جنہوں نے بار بار کہا کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں‘۔
عمر عبداللہ نے کہا: ’واجپائی جی کا نعرہ جمہوریت کشمیریت اور انسانیت ایک بصیرت افروز نعرہ تھا شاید وہ پہلے اور آخری لیڈر تھے جنہوں یہ نعرہ بلند کیا‘۔انہوں نے کہا: ’واجپائی جی ہی وہ لیڈر تھے جنہوں نے جموں وکشمیر کے منقسم حصوں کے لوگوں کو جوڑنے کے لیے سڑکیں کھولیں اور ان سڑکوں کو کھولنے کا مقصد لوگوں اور سول سوسائٹی کو جوڑنا تھا تاکہ ایک ذاتی تعلق پیدا ہوسکے‘۔ان کا کہنا تھا: ’لیکن بدقسمتی سے واجپائی کے دکھائے گئے راستے اور روڈ میپ کو بیچ میں ہی چھوڑ دیا گیا ہے اور لوگوں کو جوڑنے کے بجائے فاصلے پیدا کیے جا رہے ہیں‘۔
وزیر اعلیٰ نے بی جے پی کی قیادت والی حکومت کے 5 اگست 2019 کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’اگر جموں و کشمیر پر واجپائی کے روڈ میپ کو نافذ کیا جاتا تو ہم اس وقت یہاں نہ ہوتے جہاں پر ہم آج کھڑے ہیں‘۔انہوں نے کہا: ’جب جموں و کشمیر اسمبلی نے خود مختاری کی قرارداد منظور کی تو واجپائی کی قیادت والی کابینہ نے اسے واپس کر دیا لیکن بعد میں واجپائی کو احساس ہوا کہ یہ فیصلہ جلد بازی میں لیا گیا تھا‘۔عمر نے کہا:’لیکن اس معاملے پر مزید پیش رفت نہیں ہو سکی اور جب واجپائی جی کا انتقال ہوا تو حالات یکسر بدل گئے‘۔انہوں نے کہا: ’آج کے تعزیتی حوالوں میں لداخ اور کرگل کے قانون سازوں کا بھی ذکر ہے اور شاید یہ آخری موقع ہے جب جموں و کشمیر اسمبلی لداخ اور کرگل کے ارکان کو خراج عقیدت پیش کر رہی ہے کیونکہ لداخ اب جموں و کشمیر کا حصہ نہیں ہے‘۔

Comments are closed.