نئی دہلی: آسام شہریت اوراین آرسی کے معاملوں سے جڑی تین اہم عرضیوں پرسماعت کرتے ہوئے آج سپریم کورٹ کی چیف جسٹس رنجن گگوئی اورجسٹس ایف آرنریمان پر مشتمل این آرسی مانیٹرنگ دورکنی بینچ نے مثاثرین کوبڑی راحت دیتے ہوئے کہا کہ کلیم اور آبجیکشن کے جاری موجودہ عمل میں آج تک کے تمام قانونی دستاویزات قابل قبول ہوں گے اس کے ساتھ ہی کلیم اورآبجیکشن کی مدت میں پندرہ دنوں کی توسیع کرتے ہوئے اسے 15 دسمبر2018 سے بڑھا کر31 دسمبر2018 تک کردیا۔
واضح ہو کہ آج ان معاملوں میں پیروی کے لئے جمعیۃ علماء ہند اورآمسو کی طرف سے سینئرایڈوکیٹ کپل سبل، سینئرایڈوکیٹ اندرا جے سنگھ اوروکیل آن ریکارڈ فضیل ایوبی عدالت میں پیش ہوئے۔ قابل ذکرہے کہ آج سپریم کورٹ میں آسام شہریت سے متعلق جوتین درخواستیں پیش ہوئی تھیں، ان میں پہلی درخواست جمعیۃ علماء ہند اوردوسری آمسوکی طرف سے تھی جس میں کہا گیا تھا کہ Lift B یعنی لنکڈ ڈاکیومنٹ جوکلیم اورآبجیکشن کے لئے ثبوت کے طورپراستعمال کئے جاتے ہیں، اس کی آخری تاریخ 31 اگست 2015 تھی۔
این آرسی کی بھی آخری تاریخ 31 اگست 2015 تھی۔ جمعیۃ علماء ہند کا یہ مطالبہ تھا کہ ان لنکڈ ڈاکیومنٹ کی تاریخ بڑھا کر15 جنوری 2019 تک کردی جائے۔ دراصل اب تک یہ ہو رہا تھا کہ مثلاً اگرکسی نے ہائی اسکول پاس کیا ہے یا کسی کی شادی 31 اگست 2015 کی مدت میں ہوئی، لیکن کوئی ضرورت نہیں ہونے کی وجہ سے اس کی سند یا سرٹیفیکٹ حاصل نہیں کیا تھا۔ لیکن اب اگروہ این آرسی میں ثبوت کے طورپراس دستاویزپیش کررہا تھا تو اسٹیٹ کوآرڈینیٹرپرتیک ہزیلا اس کوتسلیم نہیں کررہے تھے اوران کا اصرارتھا کہ 31 اگست 2015 تک کی مدت کے نکالے ہوئے دستاویزہی منظورہوں گے۔ اوراس کے لئے انہوں نے باقاعدہ اشتہاربھی شائع کروادیا تھا، جس میں واضح طورپراعلان موجود تھا کہ 31 اگست 2015 کے بعد کے نکالے ہوئے دستاویزقابل قبول نہیں ہوں گے۔
وہیں جمعیۃ علماء اورآمسونے27 نومبر2018 کوسپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی، جس میں عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ 31 اگست 2015 کے بعد کے نکالے ہوئے دستاویزبھی قبول کئے جانے چاہئے۔ بعدازاں7 دسمبر2018 کوجمعیۃعلماء ہندکی طرف سے سینئرایڈوکیٹ کپل سبل نے سپریم کورٹ میں پھریہ عرضی کا ذکرکیا اورعدالت سے درخواست کی کہ یہ عرضی بہت اہم ہے اوراس پرجلد شنوائی کی جائے۔ بعد میں 10 دسمبر 2018 کوآسام سرکارنے تیسری درخواست داخل کی، جس میں اس نے مطالبہ کیا کہ چونکہ آسام پنچایت الیکشن کی وجہ سے این آرسی کے کام میں رکاوٹیں آگئی تھیں، اس لئے کلیم اور آبجیکشن کی مدت میں ایک ماہ کی توسیع کی جائے۔ سپریم کورٹ نے اس درخواست کومنظور کرتے ہوئے ایک ماہ کی توسیع کردی۔
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نےعدالت کے فیصلے کوخوش آئند قراردیتے ہوئے کہا کہ آسام شہریت تنازعہ کے حل کے تعلق سے یہ فیصلہ ایک بڑی پیش رفت ہےاور یہ فیصلہ متاثرین کے زخموں پرمرہم رکھنے جیسا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں جولوگ این آرسی میں شامل ہونے سے رہ گئے ہیں، انشاء اللہ وہ لوگ بھی اپنے ثبوت پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں گےانشاء اللہ۔ انہوں نے کہا کہ دستاویزات کی کٹ آف تاریخ میں اضافے سے متاثرین کےلئےاین آرسی میں شامل ہونے کی راہ آسان ہوجائے گی۔
مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق این آرسی سے باہرکئےگئے 40 لاکھ لوگوں میں سے اب تک 10 لاکھ لوگوں نے ہی اپنی شہریت کا دعویٰ پیش کیا ہے، اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ دستاویزات کے حصول میں لوگوں کوسخت دقتیں پیش آرہی ہیں اور اسٹیٹ کوآرڈینیٹرکی طرف سے متاثرین کی کوئی مدد نہیں مل رہی ہے بلکہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ عدالت کے واضح احکامات کے باوجود ان کے سامنے افسران کی طرف سے ہرروز نئی دقتیں کھڑی کی جارہی ہیں، مگراب فاضل عدالت کے تازہ فیصلے کے بعد تمام متاثرین کوخواہ ہندوہوں یا مسلمان انہیں اپنی شہریت کے دستاویزات کے حصول میں بلا شبہ آسانیاں پیداہوں گی اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ بہت آسانی سے اپنی شہریت کے قانونی ثبوت پیش کر سکیں گے۔ اور جمعیۃ علماء ہند ہمیشہ کی طرح مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیاد پرتمام لوگوں کی مدد کرے گی۔
مولانا ارشد مدنی نے ایک بارپھرآسام کے تمام متاثرین سے یہ اپیل کی کہ وہ کوتاہی نہ برتیں اوراین آرسی کے مراکزپرجاکرمعینہ مدت کے اندراپنی درخواستیں جمع کروادیں۔ جمعیۃ علماء ہند اورجمعیۃعلماء آسام کے وکلاء کی ٹیم اوررضاکاران مراکزپرموجودرہیں گے، جہاں وہ متاثرین کی مذہب سے بالاترہوکرانسانیت کی بنیادپرہرطرح کی قانونی امداد فراہم کریں گے۔ انہوں نے آخرمیں کہا کہ آئندہ بھی جہاں کہیں بھی ضرورت محسوس ہوگی جمعیۃعلماء ہند متاثرین کی مددکے لئے ہمیشہ کی طرح موجودرہے گی۔ جمعیۃ علماء آسام کے صدرمولانا مشتاق عنفرنے بھی اس فیصلے کوانتہائی خوش آئند قراردیا ہے۔
Comments are closed.